ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ملکی خبریں / پولیس حراست میں ہر سال اوسطا 98اموات ہوتی ہیں: این سی آربی کی رپورٹ میں دعوی

پولیس حراست میں ہر سال اوسطا 98اموات ہوتی ہیں: این سی آربی کی رپورٹ میں دعوی

Sun, 19 Jun 2016 12:21:14  SO Admin   S.O. News Service

نئی دہلی،18جون؍(آئی این ایس انڈیا) قومی جرائم ریکارڈ بیورو (این سی آربی)کے اعداد و شمار ملک میں پولیس حراست میں ہونے والی اموات کے بارے میں ساکت کر دینے والی معلومات دے رہے ہیں۔ان اعداد و شمار کے مطابق ملک میں سال 2001سے 2013کے درمیان پولیس حراست میں 1275افراد ہلاک ہوئے ہیں اور چونکانے والی بات یہ ہے کہ حراست میں ہوئی ان ا موات کے نصف سے بھی کم کیس ہی درج کئے گئے۔قومی انسانی حقوق کمیشن (این ایچ آر سی)نے جیل یا عدالتی حراست میں اموات کا جو اعداد و شمار دیا ہے، وہ اور بھی زیادہ ہے۔سال 2001سے سال 2010کے درمیان عدالتی حراست میں 12727لوگوں کی موت ہوئی۔لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ 2013کے بعد کے برسوں کے اعداد و شمار کو جمع کیا جا رہا ہے۔اس صدی کے آغاز کے بعد سے سب سے کم اموات( (70سال 2010میں ریکارڈ کی گئی تھیں، جبکہ سب سے زیادہ اموات( (128 سال 2005میں ریکارڈ کی گئیں۔ہندوستان میں ہر سال اوسطا 98لوگ کی پولیس حراست میں موت ہوئی۔ایشین سینٹر فار ہیومن رائٹس (اے سی ایچ آر)کی ایک رپورٹ ’’ٹارچر ان انڈیا 2011‘‘کے مطابق یہ اعداد و شمار حقیقت بیان نہیں کرتے کیونکہ اس میں مسلح افواج کی حراست میں ہوئی اموات کے اعداد و شمار شامل نہیں ہے۔اس رپورٹ میں ان واقعات کا بھی ذکر ہے جس میں حراست میں موت کے کیس یا تو این ایچ آر سی کو بتائے نہیں گئے یا این ایچ آر سی کی طرف سے ریکارڈ نہیں کیا گیا۔سال 2001-2013کے درمیان مہاراشٹر، آندھرا پردیش اور گجرات میں پولیس حراست میں سب سے زیادہ اموات ہوئیں، جبکہ بہار میں ایسے صرف 6 مقدمات درج کئے گئے،بڑی ریاستوں میں ہریانہ نے اس مدت کے دوران حراست میں ہوئی موت کے ہر معاملے کو درج کیا۔منی پور، جھارکھنڈ اور بہار جیسی ریاستوں نے حراست میں ہوئی موت کے سو فیصد معاملات کو درج کیا، لیکن یہ اعداد و شمار بالترتیب دو، تین اور6 ہیں۔تقابلی طور سے مہاراشٹر میں حراست میں موت کے صرف 11.4فیصد کیس درج کئے گئے،یہ اگرچہ ممکن ہے کہ بہت سی اموات کو ایک ہی معاملے میں شامل کیا گیا ہو۔قومی سطح پر پولیس حراست میں ہر 100لوگوں کی موت پر صرف دو پولیس اہلکاروں کو مجرم ٹھہرایا گیا۔حراست میں اموات کے لئے صرف 26پولیس افسران کو مجرم ٹھہرایا گیا۔ہر درج 100مقدمات میں سے اوسطا صرف 34پولیس اہلکاروں پر الزامی خط داخل کیا گیا اور اس میں صرف 12فیصد پولیس اہلکاروں کو مجرم ٹھہرایا گیا۔مہاراشٹر میں صرف 14فیصد مقدمات میں پولیس اہلکاروں پر الزامی خط داخل کیا گیا، لیکن کسی کو بھی مجرم نہیں ٹھہرایا گیا۔اتر پردیش میں 71پولیس اہلکاروں پر الزامی خط داخل کیا گیا، جن میں سے 17کو مجرم ٹھہرایا گیا۔وہیں چھتیس گڑھ میں جن پولیس اہلکاروں پر الزامی خط داخل کیا گیا، ان میں سے 80فیصد کو مجرم ٹھہرایا گیا۔لوک سبھا میں سال 2010میں منظور تشدد کی روک تھام بل اب بے اثر ہو چکا ہے۔یہ اقوام متحدہ کے تشدد مخالف معاہدے کی توثیق کرنے کے لئے تیار کیا گیا تھا۔بل میں اگرچہ کئی خامیاں تھیں لیکن اپوزیشن نے اسے جلد سے جلد منظور کرنے کے لئے کہا تھا۔


Share: